۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 376586
25 جنوری 2022 - 14:03
اسلام اور جدیدیت (Modernism)

حوزہ/ دین اسلام کی بنیاد وحی الٰہی پر قائم ہے اور اس کے سرمدی اصول غیر متبدل اور ناقابل تغیر ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ وحی الٰہی کی بنیاد پر ترتیب پانے والا معاشرہ نہ تو غیر مہذب ہوتا ہے اور نہ پسماندہ۔

تحریر : محمد جواد حبیب

حوزہ نیوز ایجنسیجدیدیت جسکا آغاز مغرب کی سر زمین سے شروع ہو کے مشرق زمین تک آگی، جدیدیت اصل میں ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کا نام ہے جو گزشتہ دو صدیوں کے یورپ میں ’’روایت پسندی‘‘ Traditionalism اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں اس کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار، نظریات، آفاقی صداقت، مقصدیت اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دلچسپی کو کم کر دیا جائے۔ اسلام کی نظر میں یہ خطرناک موڑ ہے کہ انسان اصول و مقاصد پر عدم یقینی کی کیفیت میں مبتلاء ہو جائے ۔

جدیدیت (Modernism)کیا ہے ؟
جدت پسند ی (modernity) کو لاطینی کلمہ (modo) سے اور جدیدیت(modernism) کو کو لاطینی کلمہ (modernus) سے ماخوذ کیا گیا ہے جسکا معنی یہ ہے تازہ ، تازگی ، ابھی ،اس وقت (just now) ہے جدیدیت کے ذریعہ قرون وسطی اور کلیسا کی حاکمیت کے درو کو عہد عتیق (antiquus) قدیم اور ماضی سے تلقی کیا ہےاور نشاۃ ثانیہ کے بعد کے دور کو دور جدیدیت(modernism) سے یا د کیا گیا اس بناپر (modern)انسان وہ ہے جو نشاۃ ثانیہ کے علمی ، فکری ، ثقافتی ، ہنری اور ادبی اصلاحات کو صحیح اور اس کو اپنے جامعہ میں ترویج دینے کی کوشش کرے ۔

اس موضوع کا اہم سوال یہ ہے کہ جدیدیت کی حقیقت اورجوہر کیا ہے؟ کیا اسلام اور جدیدیت میں سازگاری اور مطابقت ہوسکتی ہے ؟جدیدیت کی حقیقت کو مغربی فلاسفرز دکارت نے (objective) اور کانت نے (subjective) بیان کیا ہے یہ دو الفاظ مغربی فلسفہ میں ،بالخصوص دکارت اور کانت میں فلسفہ میں کلیدی کردار نبھاتی ہے ۔ان دو فلاسفرز نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی کہ انسان حقیقت میں جوہر اور گوہر جدیدیت ہے یہ انسان یہ جو مبداء، مقصد اور رہنما ہے وہ ہر خیرو شر، صحیح و غلط ، حق و باطل ، سعادت اور شقاوت کو تشخیص دے سکتا ہے اس لئے کسی دین کی یا وحی الھی اور خدا کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انسان اپنی عقل کی توانایی سے ہر چیز کو درک کرسکتا ہے لہذا جدیدیت کی نگاہ میں فلسفہ ، سائنس، ٹکنالوجی ، سیاسیت ، اقتصاد، امینت ، صنعت، سلامت ،ہنر، ارتباطات اور سوشل میڈیا سب کا سر چشمہ عقل انسانی ہے ۔

شہید صدر کے نزدیک مغرب میں کلیسا کے خلاف بغاوت اور علم کے ذرائع میں حس،تجربہ اور عقل ہی کو تسلیم کرنا وہاں پر علمی،دینی اور اخلاقی میدانوں میں بنیادی تبدیلیوں کا نتیجہ تھا جو کہ بعد میں سیاست اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں زبردست تبدیلیوں کا مقدمہ بنا۔مغربی جدیدیت کی اصل خرابی یہ ہے کہ اس کا تعلق غیب اور آخرت سے مکمل منقطع کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ نظام روحانی اور اخلاقی اقدار سے عاری ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب نے ترقی اور پیشرفت کو وسیلہ بنا کر دیگر اقوام کا استحصال کیا، ان کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کیا، ملکوں کو تاراج کیا اور مختلف اقلیتوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا اور یہ سب آزادی،عدالت، مساوات اور ترقی کے نام پر کیا گیا۔شہید باقر الصدر فرماتے ہیں کہ آزادی،عدالت، مساوات اور ترقی بہترین نعرے ہیں لیکن جب یہ خدا اور دین سے جدا کر کے دیکھے جاتے ہیں تو ان کے معانی بدل جاتے ہیں،جبکہ خدا اور دین سے ملایا جائے تو ان کا مفہوم وسیع اور بلند ہو جاتا ہے۔پس جدیدیت کو رد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدیدیت ، بذات خود کوئی بری چیز ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ جدیدیت کو اس کے اصل مقام کی طرف پلٹایا جائے تاکہ لوگ مادیات کے ساتھ ساتھ معنویات میں بھی ترقی کرے اورمعاشرے میں امن و امان ، چین و سکون،اسائش اور آرامش کا ماحول وجود میں آسکے ۔ یہاں بہت اختصار کے ساتھ جدیدیت کے کچھ حضوصیات کی جانب اشارہ کیا جاے تو مفید ہوگا۔

جدیدیت کی خصوصیات :
1. Humanism انسان محوری ، یا انسان پرستی است یعنی انسان کو اصل اور اساس قرار دینا،جدیدیت نے انسان کو اتنا بلند مقام دیا کہ اس کو خدا کی جگہ رکھا دیا اب حق وباطل ، صحیح و غلط، خیر وشر، سعادت و شقادت سب کا ملاک و معیار انسان ہے اس لئے پارلمنٹ بنایا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنی مرضی سے قانون بنائیں۔
2. Rationalism عقلانیت یاعقل پرستی ہے۔ جدیدیت نے دنیا والوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انسان کی عقل میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ صحیح اور غلط کو سمجھ سکے اس بنا پر ہمیں کوئی دوسرا بتانے والے کی ضرورت نہیں ہے انہوں نے اس نعرہ کے ذریعہ وحی الھی کا انکار کیا درحقیقت عقل انسانی بغیر وحی الھی کے ہداہت کے شیطانیت اور گمراہی ہے ۔
3. Individualism انفرادیت ، جدیدیت کی ایک اور خصوصیات یہ ہے کہ اس نے فرد کو اصل و اساس قرار دینا یعنی فردی زندگی کو اجتماعی زندگی پر مقدم کیا ۔
4. Human rights انسانی حقوق پر توجہ کرنا
5. Democracy دموکراسی اور جمہوریت پر زوز دینا،جدیدیت نے سیاسی میدان ڈموکراسی کو پیش کیا ،سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے: "government of the people, by the people, for the people" یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر۔
6. Anti-tradition روایت پسندی کی مخالفت ، جدیدیت اصل میں ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کا نام ہے جو گزشتہ دو صدیوں کے یورپ میں ’’روایت پسندی‘‘ Traditionalism اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں اس نے تمام قدیم اور ماضی کے افکار، عقاید اور ادیان و مذاہب کا انکار کردیا۔
7. Secularism لادینت ، ضد مذہبیت ، مخالف دین ، یعنی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے دین کو حذف کرنا اور دین کو صرف اور صرف نجی زندگی تک محدود کرنا جو آخرکار دین کی مخالفت اور حذف دین کا سبب بھی بنا ہے ۔
8. Utilitarianism افادیت پسندی، نظریہ افادیت پسند ی کا جوہر دراصل اس نظریے کا لطف اور تکلیف کا تصور ہے ۔ افادیت پسندی کا فلسفہ ہر اُس چیز کو اچھا سمجھتا ہے جو خوشی میں اضافہ اور تکلیف میں کمی کرتی ہے ۔ یہ نتائج پر مبنی فلسفہ ہے ۔ اگر کسی عمل کا نتیجہ خوشی کو بڑھانے اور تکلیف کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے تو اس عمل کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ نظریہ افادیت پسندی بنیادی طور پر لذت پسندی کا فلسفہ ہے ۔ نظریہ افادیت پسندی کی تاریخ کا سراغ قدیم یونانی فلاسفر ایپی کیورس تک لے جاتا ہے۔ لیکن ایک مکتبہ فکر کے طور پر نظریہ افادیت پسندی کا سہرا اکثر برطانوی فلاسفر جیریمی بینتھم(Jeremy Bentham) کے سر جاتا ہے ۔ مجموعی طور پر افادیت پسندی کا فلسفہ جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ لوگوں کےلیے اس زندگی کو تکلیف سے پاک بنانے پر مرکوز ہے ۔ سطحی طور پر یہ ایک قابلِ تعریف مقصد معلوم ہوتا ہے ۔ کون نہیں چاہے گا کہ تمام دنیا کے لوگوں کے دکھوں کو دور کیا جائے ؟ اس نظریہ پر اعتراض یہ کیاجاسکتا ہے کہ انسان کے مطابق اچھے سےمراد خوشی ہے و برے سے مراد ناخوشی ہے اس بنا پر ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز جو ایک شخص کےلیے خوشی کا باعث ہو وہ دوسرے شخص کے لیے خوشی کا باعث نہ ہو۔اس وقت نظریہ افادیت کیسے انکی مشکل کو ہرکرےگا۔
9. Liberalism مطلق آزادی ، لبرال ازم وہ مکتب فکر یا روش زندگی ہے جسمیں انسانوں کی فردی آزادی پر سب سے زیادہ زور دیا جاتاہے یہ مکتب فکر استبداد اور آمریت (authoritarianism) کے مخالفت کرتی ہے چاہے وہ استبداد حکومت کی جانب سے ہو یا کسی دین و مذھب یا سیاسی پارٹی کی جانب سے ہو یہ مکتب انکے مخالفت کرتی نظر آتی ہے اور انسان کو ہر طرح کی بندش سے آزاد قرار دیتی ہے
10. Relativism نسبیت گرایی ، ،یعنی تمام حقیقت ہر فرد سے نسبت رکھتی ہے۔اس نظریہ کے تحت انسان کاہرقول وفعل ، رفتار و کرداراسکی بنسبت اچھا اور برا ہے شاید کسی دوسرے کے لئے وہ قول و فعل برا ہو جو اس کے لئے اچھا ہے ۔
11. Globalization عالمگیریت یا جهانی‌سازی ، ، لُغوی طور پر اِس سے مُراد علاقائی یا مقامی مظاہر (phenomena) کو عالمگیر بنانے کا عمل ہے۔ِاس کی وضاحت کچھ یُوں کی جاسکتی ہے کہ "ایک ایسی عملیت جس سے ساری دُنیا کے لوگ ایک معاشرے میں متحد ہوجائیں اور تمام افعال اکٹھے سر انجام دیں"۔ان خصوصیات کی جانب حجةالاسلام والمسلمین ربانی گلپایگانی اپنے مقالہ «اسلام و مدرنیسم» میں بھی اشارہ کرچکے اور اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

جدیدیت اور اسلام کا موقف :
دین اسلام کی بنیاد وحی الٰہی پر قائم ہے اور اس کے سرمدی اصول غیر متبدل اور ناقابل تغیر ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ وحی الٰہی کی بنیاد پر ترتیب پانے والا معاشرہ نہ تو غیر مہذب ہوتا ہے اور نہ پسماندہ۔ مفکرین یورپ کو اس بات کی پریشانی رہتی ہے کہ وہ کونسی چیز ہو جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا جائےچنانچہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے نئی سے نئی تھیوری و فلسفہ پیش کرتے ہیں گذشتہ صدی ’’جدیدیت‘‘ کی صدی تھی۔ جدیدیت اصل میں ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کا نام ہے جو گزشتہ دو صدیوں کے یورپ میں ’’روایت پسندی‘‘ Traditionalism اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں اس کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار، نظریات، آفاقی صداقت، مقصدیت اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دلچسپی کو کم کر دیا جائے۔ اسلام کی نظر میں یہ خطرناک موڑ ہے کہ انسان اصول و مقاصد پر عدم یقینی کی کیفیت میں مبتلاء ہو جائے ۔

مغربی جدیدیت نے پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ محیر العقول سائنسی ایجادات نے آداب و تقالید، رسوم و رواج،تہذیب و ثقافت،غرض زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ جدیدیت کی اس یلغار کے نتیجے میں مسلمانوں کے دو بڑے گروہ کھل کر سامنے آگئے۔ایک وہ گروہ جو جدیدیت کے ریلے میں بہتے ہوئے مغرب سے آنے والی ہر بات کو ترقی کی علامت اور شعور ادراک کی بلندی کا مظہر سمجھ کر قبول کرنے لگا، اور حد المقدور اسلام کو اس منہ زور تحریک کے ساتھ ساز گار بنانے کر پیش کرنے کی کوشش کرنے لگا اور جہاں ظاہری مطابقت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوا وہاں معذرت خواہانہ توجیہیں پیش کی جانے لگیں۔

دوسری طرف ایک گروہ نے دوسری انتہا کو اختیار کیا اور مغربی جدیدیت کی مخالفت میں ہر نئی چیز کو دین سے متصادم اور مذہب کے لئے خطرہ قرار دے کراس کی مخالفت شروع کر دی۔ حقیقتا اس گروہ نے مسلمانوں میں ۰۵۶۱سے قبل کے پادریوں کا کردار ادا کیا،کیونکہ ان کی بے جا سختیوں اور غیر معقول رویوں کی وجہ سے جدید دور کا مسلم جوان وقت کے تقاضوں اور دینی اقدار میں ہم آہنگی پیدا کرنے سے قاصر ہو کر الحاد کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے لگا۔

تیسرا اور حقیقی راستہ ، ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک قلیل تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مغربی جدیدیت کو خوب سمجھا۔اس کی خوبیوں اور خامیوں کا زبردست تجزیہ کیا اور پھر اس سے مقابلے کا معتدل راستہ اختیارکیا۔اس گروہ میں علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے مغرب شناس لوگ تھے،جنہوں نے مغرب کے ان دل فریب نعروں کی حقیقت اور ان کے عواقب سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کی مسلسل کوششیں کیں۔اقبال نے خود اہل مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا:
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے / کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ کل زرکم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی / جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .